منیرہ قریشی ایک ایسی شاعرہ ہیں جنھیں جذبوں کو لفظوں میں ڈھالنے میں کمال حاصل ہے۔ جب نثر لکھتی ہیں تو الفاظ خود بہ خود جڑ کر منظر کشی کا ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ وہ جذبوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا سنبھل سنبھل کر چناؤ کرتی ہیں اور صفحۂ قرطاس پر اتار کر انھیں اَمر کردیتی ہیں۔داستان،منیرہ قریشی کے قلم سے لکھی بہت سی کتابو ں کو شائع کرچکا ہے۔
”اِک پرخیال“بنیادی طور پر بہت سی تحریروں پر مبنی ہے۔اس میں موجود دلچسپ مضامین قاری کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔اس کتاب کے ذریعے منیرہ قریشی نے دراصل قاری کو بہت اچھی اچھی نصیحتوں سے نوازا ہے۔ اپنے احساسات وخيالات کو لفظ کے پیرہن میں سموتے ”اک پرخيال!“ مختلف النوع موضوعات کا ایک ایسا آئینہ ہے جو فاضل مصنفہ کے دلی جذبات کا عکاس ہے وہیں قاری پر بھی سوچ کےدر وازےکھولتا ہے۔اس کتاب میں مصنفہ بہت سے موضوعات کو زیرِ بحث لائی ہیں جیسے صبر کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہیں:
جب تک صبر کے میٹھے ہونے کی سمجھ آتی ہے تب تک قبر کی الاٹمنٹ کے کاغذ نظر کے سامنے پھرنے لگتے ہیں، لیکن ہم پھر بھی بہت منافقت سےاپنے نفس کے دانت کچکچانے کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔کاش اس نفس کی طرف پہلے دھیان دے دیتے، اس اندر کی آواز کو نظرانداز نہ کرتے، اورشروع جوانی میں یہ بات سیکھ لیتے کہ یہ نسخۂ کیمیاہے۔
منیرہ قریشی نے اس کتاب میں بہت کچھ لکھا ہے۔زندگی میں گزرنے والے اچھے برے واقعات اور واقعات بھی ایسے جن سے قاری کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔مصنفہ کا اندازِ تحریر سادہ مگر دلکش ہے۔ ان کی لکھی گئی تحریروں ایک خوبصورتی جھلکتی ہیں۔انھوں نے بہت سے مضامین پر طبع آزمائی کی ہے۔تاریخ کے دیوانوں کے لیے اس میں ایک بہت ہی خوبصورت مضمون اس کتاب میں درج ہے جس کی چنیدہ سطور درج زیل ہیں:
ایک تاریخی کتاب پڑھنے والے کو یہ کتاب محویت کے عالم میں لے جاتی ہے۔قاری خود کو اُسی دور کے گلی کوچوں میں پھرتا اور اسی دور کے لوگوں کے قریب سے گزرتا محسوس کرنے لگتا ہے۔ایک اچھے مؤرخ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ تاریخی واقعات اور مکالمے اس انداز سے لکھے کہ کرداروں کے ہلتےہونٹ، اُن کےکپڑوں کی سرسراہٹ، اُن کے گرد گزرتے گھوڑے، اور گھر کے صحن میں کھنکتے برتنوں یا قہقہوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔
اگر آپ بھی ان دلکش تحریروں کی حامل کتاب کو پڑھنا چاہتے ہیں تو ابھی اپنی کتاب آرڈر کریں۔