خراجِ عشق
مصنف: ایم عامر آزاد
ایم عامر آزاد کی کتاب ”خراجِ عشق“ اِس وقت شائع ہو کر آپ کے سامنے موجود ہے۔ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عشق کی ایک لازوال داستان ہے جسے مصنف نے بہت ہی عمدگی کے ساتھ لفظوں کی مالا میں پرویا ہے۔”خراجِ عشق“ کو پڑھتے ہوئے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ سب کردار تو آپ کےارد گردموجود ہیں۔بات تو صرف انہیں محسوس کرنے اور سمجھنے کی ہے۔
مصنف کا اسلوب سادہ اور رواں ہے۔ بہترین منظر نگاری، آسان لفظوں کا چناؤاور کہیں کہیں بے ساختگی میں لکھے جملے آپ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار شیر دِل ایک حساس طبیعت کا مالک انسان ہے۔ جس نے عشق کیا اور اُسی عشق کو نبھانے کے لیے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔شیر دل کا پہلا تعارف جو کروایا گیا اُس کے مطابق وہ ایسا تھا:
”وہ پینتالیس سال کے پیٹے میں ہی ہوگا لیکن نہ جانے کیوں اُس کے بالوں کو سفیدی نے ڈھک لیا ہے۔ وہ دیکھنے میں اپنی عمر سے بہت بڑا دکھتا ہے۔ وہ پہلی نظر میں دیکھنے سے مجھے کوئی شدت پسند دکھا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ گزرے وقت نے مجھے میری رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ پر عیاں ہوا کہ وہ ایک حساس اور انسان دوست شخص ہے۔“
کچھ مقامات پر لفظوں کی بنت کچھ ایسی کی گئی ہے کہ پڑھتے ہوئے ہنسی لبوں پر کھیلنے لگتی ہے۔ ایسے مناظر اکثر ہمیں نظر آتے ہیں۔
”اچانک ہی اس حسینہ ماہ جبیں نے اپنا سر اٹھاکر دیکھ لیا کہ کوئی اس کے سر پر سوار اُسکی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ اُس حسینہ نے میری طرف بہت ہی ناگوار سی نظروں سے دیکھا، معلوم یہی ہو رہا تھا کہ اس نے میرے اس عمل کو شدت سے ڈس لائیک کیا ہے۔ اس سے پہلے کے وہ خاتون میرے اس عمل کے متعلق میرے باس کو آگاہ کرکے مجھے یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بلاک کروادیتی میں نے اس جگہ کو چھوڑ دینا ہی مناسب سمجھا۔“
کیا کبھی کسی نے سوچ سمجھ کر عشق کیا ہے جو وہ اِس کے وار سے خود کو بچا لے۔ایسا ہی یہاں بھی ہوا ہے، آپ بھی پڑھیے کہ عشق سے توبہ کی جارہی ہے۔
”ہائے عشق، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے تو بنا کسی تردد کے میں اس کتابِ عشق کے تمام صفحات ہی جلا کر راکھ کر دیتا اور پھر حضرت عشق کی استیوں کو بھی سمندر بردکر دیتا کہ کہیں نام و نشان ہی نہ رہ جائے اس جذبے کا۔“
کیا یہ عشق کی داستان پوری ہوئی تھی یا ہمیشہ کے لیے ادھوری رہ گئی تھی، جاننے کے لیے مکمل ناول پڑھیے ”خراجِ عشق“۔
https://www.meraqissa.com/book/1903