غزل اُردو ادب کی ایک قدیم صنف ہے جس کے ذریعے اُردو شاعری کوکافی پذیرائی ملی۔مختلف ادوار میں بہت سے شعرا نے اس فن میں طبع آزمائی کی اور کامیابی کی بلندیوں کو چھوا۔زیرِ نظر کتاب حکیم امیر علی تلاشؔ کا شعری مجموعہ ہے جس میں انھوں نے اپنی خوب صورت غزلیں پیش کی ہیں۔انھوں نے اٹھانوے کی دہائی میں ٹاؤن کمیٹی سمندری میں بطور لائبریری کلرک کام کیا اور وہیں اپنے کتب بینی کے شوق کو پورا کیا۔اس کے بعد انھوں نے فاضل الطب والجراحت کا ڈپلومہ حاصل کیا اور گھر میں ہی مطب کھول لیا۔اس سب کے ساتھ ساتھ ان کا کارِ شعر و سخن بھی جاری رہا۔
ان کے اشعار میں غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔تلاشؔ کا شعری اسلوب بےحد رواں اور منفرد ہے اور اس کتاب میں ان کی یہی خوبی نمایاں ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جو مجھے چھوڑ گیا گوشۂ تنہائی میں
وہ مرے دل سے گیا ہو یہ ضروری تو نہیں
بے رخی اس کا ہے شیوہ یہ ضروری ہے مگر
وہ مرے حق میں برا ہو یہ ضروری تو نہیں
وہ بھی بے چین رہیں جلوہ دکھانے کے لئے
میری بیتاب نگاہو!یہ ضروری تو نہیں
پروفیسر راشد محمود کے بقول: ”حکیم صاحب طبعاً شاعر بھی ہیں اور درویش بھی اور غالباً انھی دو اوصاف نے ہی انھیں دنیا کی ہنگامہ آرائی سے الگ تھلگ رکھا ہے
۔حکیم صاحب کی شخصیت کا ایک خاص اور قابلِ قدر وصف اقبال شناسی ہے جو بے شک قابلِ ستائش ہے۔قحط الرجال کے اس دور میں کسی اقبال شناس کا وجود غنیمت ہے۔“
ان کی غزلوں میں تاثیر اور روانی جھلکتی ہے۔
مانوس ہوئے جاتے ہی ہم اس کی فضا سے
صحرا کا سبھی نقشہ مرے گھر کی طرح تھا
معلوم نہ تھا مجھ کو کہ نکلے گا لٹیرا
وہ شخص مجھے لگتا تو رہبر کی طرح تھا
ہر حال سے آگاہ تلاؔش اس نے ہے رکھا
یہ دل تو ہمارا کسی مخبر کی طرح تھا
حکیم صاحب کا اندازِبیان سادہ مگر دلکش ہے۔ان کے اشعار تاثیر سے بھرپور ہیں۔اس کی اچھی شاعری کی قدرومنزلت اجاگر ہوتی ہے۔ان کے اندازِبیان میں شائستگی اور عاجزی و انکساری واضح ہے۔ان کے الفاظ کا چناؤ بھی قابلِ ستائش ہے۔جیسے یہ اشعار دیکھیے:
بڑھ گیا غم چھن گیا صبر و سکوں
دل لگانے کی سزا پانے لگے
رہتی ہے گردش میں چشمِ بے قرار
دل مرا کعبے نہ بت خانے لگے
حضرتِ ناصح!اثر ممکن نہیں
آپ دیوانوں کو سمجھانے لگے
اچھی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ا بھی تلاشؔ کا شعری مجموعہ آرڈر کریں۔