زندگی ایک کرونا
مصنف: وقار احمد بخش
وقار احمد بخش کی کتاب” زندگی ایک کرونا“ کے عنوان سے منظر پر جلوہ افروز ہے۔ کتاب کے عنوان سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب کرونا کے مشکل اور کٹھن وقت کے دوران لکھی گئی ہے۔ کتاب میں کل چھ افسانے اور ایک نظم شامل ہے۔ کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جو معاشرے کے کسی نہ کسی تلخ پہلو کو اُجاگر کرتے ہیں۔
مصنف کا انداز دل چسپ اور رواں ہے۔ سادہ ، عام فہم انداز میں لکھی گئی یہ کتاب قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔اگر بات عنوان کے حوالے سے کی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے صرف کرونا کو ہی اپنی تحریر میں بیان نہیں کیا بلکہ کچھ ایسے عناصرکا بھی ذکر ملتا ہے جو ہمارے معاشرے میں ”کرونا“ جیسی حیثیت رکھتے ہیں، جن سے دوری اختیار کرنا ہی بھلائی ہے۔
کتاب میں شامل کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جوبے اختیار آپ کے لبوں پر ہنسی لانے کا سبب بنتے ہیں۔جیسا کہ افسانے”دودھ کا جلا“میں کیا ہی دل کش انداز میں ناکام محبت کی داستاں بیاں کی ہے:
یہ قدرت کا کوئی ظالم مذاق تھا۔وہ بھی ہماری شادی کے دن!لیکن ہم نے ہمت کر کے مسکراکر سلام علیکم کہا۔نازنین نے سلام کا جواب دیا اور پھر اپنے بچے کو بھی سلام کا کہا۔وہ بیچارہ شاید شادیوں کا عادی نہ تھا، چنانچہ شرما گیا۔ہم نے سوچے سمجھے بغیر سامنے پڑے گلاب جامن اٹھا کر اس کی جانب بڑھائے۔ٹھیک اسی وقت ایک درد ناک سانحہ پیش آیا جب نازنین نے بڑے پیار سے اپنے بچے کو کہا، ”بیٹا شرماؤ نہیں، لے لو ناماموں سے گلاب جامن!“
اِسی طرح وقار احمد بخش اپنے ایک افسانے ”تماشا“ میں اِس سماج کی تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے، جو پہروں آپ کو سوچنے پر مجبور کردے گا۔کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو نہ پہچان سکا۔
”اس وقت نوابوں کی دوسری ٹولی میں سے بھی ایک نواب میدان میں اترا۔اس نے بڑے نواب کے مقابلے میں نوٹ لٹانے شروع کر دیے۔جیسے جیسے مقابلہ گرم ہوتا گیا اسی طرح محفل کا ماحول بھی کشیدہ ہونے لگا۔کبھی ان نوابوں کا پلڑا بھاری تو کبھی ان کا۔درمیاں میں نوابوں کی بیٹی مریم عرف عینی خان انھی نوابوں کے پنڈال میں ناچتی رہی۔“
”زندگی ایک کرونا“ زندگی کے مختلف رنگوں سے سجی کتاب ہے۔ مصنف کا ہلکا پھلکا انداز، برجستہ جملے اور مکالمات نے افسانوں میں جان ڈال دی ہے۔ آپ بھی اِس دل چسپ کتاب کو پڑھیے اور اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔
کتاب پڑھنے کے لیے دیے گئے لنک کو دبائیے۔
https://www.meraqissa.com/book/1869
دِیا خان بلوچ