لوگ نثر سے زیادہ شاعری کو اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اس میں کم الفاظ میں بہت گہری باتیں ہوتی ہیں۔ شاعری اُردو ادب کی ایک قدیم صف ہے۔ اس صنف کے ذریعے اُردو کوکافی پزیرائی ملی۔ شاعری نثری اظہار کو پختگی بخشتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک شاعر کو معاشرے سے متعارف کرواتی ہے۔ اسی لیےمختلف ادوار میں بہت سے شعراء نے اس فن میں طبع آزمائی کی اور کامیابی کی بلندیوں کو چھوا۔ زیرِ نظر کتاب ماہی شاہین ؔ کاشعری مجموعہ ہے جس میں انھوں نے اپنی خوبصورت شاعری کو پیش کیا ہے۔انھیں بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا اور اسی شوق کے زیرِ اثر انھوں نے یہ مجموعہ تحریر کیا۔ ماہی ؔکا شعری اسلوب بےحد رواں اور منفرد ہے۔ ان کے اشعار میں ایک تسلسل اور خوبصورتی دکھائی دیتی ہےجو پڑھنے والے بھلی معلوم ہے۔جیسے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
وہ لفظ جو ملتے تھے کبھی ہم سے
آج وہی روٹھے روٹھے سے لگتے ہیں
وہ صدیاں جو گزریں تھیں بڑی مشکل سے
آج وہی گزرے زمانوں سے لگتی ہیں
ہر پل جو کبھی جڑے تھے مجھ سے
آج وہی بیگانے بیگانے سے لگتے ہیں
ماہی ؔ شاہین کی شاعری مختلف موضوعات کے گرد گھومتی ہے اور ہر موضوع اپنی خوش بیانی کی وجہ سے قاری کی توجہ کا مرکزبن جاتا ہے۔ماہیؔ کی غزلوں میں تاثیر اور روانی جھلکتی ہے۔ان کا اندازِبیان سادہ مگر دلکش ہے اور ان کے اشعار تاثیر سے بھرپور ہیں۔ اس کی اچھی شاعری کی قدرومنزلت اجاگر ہوتی ہے۔ ان کے اندازِبیان میں شائستگی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے الفاظ کا چنائو بھی قابلِ ستائش ہے۔
اب کا ملنا کئی بار ملنے کے برابر ہے
آپ کا یوں آنا کئی بار کی ہماری آرزو ہے
جیسے پھولو ں کا خوشبو سے مل کر بننا ہوتا ہے
ایسے ہی ہمارا آپ سے ملنا کئی بار کی آرزو ہے