کومل بھٹی لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک باصلاحیت خاتون ہیں۔ وہ ایک لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب سائیکالوجسٹ بھی ہیں اور ایک نامور ادارے میں بطور ری سورس ٹیچر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ کومل نے اپنے آس پاس موجود حقیقی کہانیوں کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور انھیں الفاظ کی مالا میں کچھ اس طرح پرویا ہے کہ قاری داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس کتاب میں مصنفہ نے بہترین منظر نگاری پیش کی ہے۔جیسے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”اپنے کمرے میں خود کو محفوظ پا کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔پاس پڑی میز سے پانی اٹھا کر پیا اور موبائل آن کر کے ٹائم دیکھا۔ٹائم دیکھتے ہی اسے احساس ہوا کہ اس کا آلارم بجنے میں بس چند ہی منٹ رہ گئے ہیں۔وہ اسی حالت میں بیڈپر بیٹھی آلارم کے بجنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔اور کچھ یادوں نے اسے آ گھیرا۔۔۔وہی ہنستا مسکراتا چہرہ۔۔۔آنکھوں سے ٹپکتی شرارت اور اردگرد قہقہوں سے گونجتی فضا۔مانم ابھی اپنی سوچ کی گہرائیوں میں ڈوب ہی رہی تھی کہ الارم کی آواز نے اسے واپس کھینچ لیا۔“
یہ کہانی معاشرے میں موجود ایک عمومی موضوع پر مبنی ہے۔مانو ایک ایسی لڑکی ہے جس کا زندگی میں کچھ بننے کا خواب ہے۔اس کا یہی خواب اس کی زندگی کا محور ہوتا ہے لیکن اچانک اس کی ملاقات روشان سے ہوتی ہے۔وہ بظاہرایک ہنستا مسکراتا نوجوان مانوکی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے لیکن وہ نشے کی لت میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی برباد کرلیتا ہے۔ایسے میں کہانی میں نئے کردارسالار کی آمد ہوتی ہے جو کہانی کی جان ثابت ہوتا ہے۔اس ناول میں مصنفہ نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے بہترین کردار نگاری کی ہے۔
کہانی کا طرزِبیان سادہ مگر دلچسپ ہے اور الفاظ کا چناؤ بھی نہایت عمدگی سے کیاگیا ہے، یہ اقتباس اس کی مثال ہے۔
”اندھیراچھا چکا تھا، ان دونوں كے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔چاند کی روشنی نےمانو كے چہرے کو اور بھی نکھاردیا تھا۔رونے سے اس کا چہرہ لال ہوگیا تھا۔سالارکچھ دیروہاں ایسے ہی خاموشی سے بیٹھا اس کی خوبصورتی کوسراہتا رہا۔آج وہ اپنی قسمت پریقین نہیں کرپا رہا تھا کیونكہ دنیا کی سب سے حسین لڑکی اِس وقت اس كے پہلومیں بیٹھی تھی۔ہرطرف خاموشی کا راج تھا۔ہوا کی سرسراہٹ اِس خاموشی کو چند لمحوں كے لیے سُربکھیرتی ہوئی توڑتی اور پھر سے ایک گہرا سناٹا چھاجاتا۔“
آخر کیا ہوگا تین چاہنے والوں پر مبنی اس کہانی کا انجام؟ جاننے کے لیے ابھی اپنی کتاب خریدیں۔