ادب و تنقید
مصنف: منیب مسعود
تحریر: دِیا خان بلوچ
منیب مسعود چشتی کا تعلق ضلع اٹک کے ایک نواحی گاؤں”ناڑہ“سے ہے ۔ ان کی پیدائش سن 1992ء میں ہوئی ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی، اس کے بعد چند سال کے لیے عربی سے مستفید ہونے کے لیے الکرم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ (سرگودھا) چلے گئے ۔ وہاں سے واپس آ کر انھوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے انگریزی میں بی ایس(آنرز) کیا اور گریجویٹ ہوئے ۔ گریجویشن کے بعد منیب مسعود نے گورنمنٹ سکول میں بطور معلم فرائض انجام دیے ۔ساتھ میں UMT، لاہور سے ایم فل بھی جاری رکھا ۔ان کے مقالہ کا موضوع ”قوالی پر مابعد جدیدیت کے اثرات“پر تھا، جو بہت محنت و لگن سے پایۂ تکمیل کو پہنچا ۔
منفرد موضوعات پر لکھے گئے افسانوں، انشائیوں اوت تنقیدی مضامین کی ایک ایسی کتاب جو اپنے سادہ اسلوب کی وجہ سے بھی اہم ہے۔ اس کتاب میں مصنف کی فکری گہرائی اور باریک بینی نمایاں نظرآتی ہے۔
آج حنانے پیا کے آنے کی خوشی میں وہی لال رنگ پہنا تھا جو سہاگ کی یاد کو تازہ کر دیتا تھا۔ اس سے ان دو سالوں میں کتنی بار یہ خواہش ظاہر کی گئی تھی مگر سر پر جو ں بھی نہ رینگی تھی۔ مگر آج، آج تو کچھ خاص ہی موقع تھا، یہی تیاری ہر دفعہ عید کی آمد پر طے ہوتی لیکن یہ خونی رنگ، اس کی زندگی میں دوسری بار، اس کے مخملیں بدن پر عشق کی داستان رقم کرنے چلا تھا۔ جس نے جدائی کے زخم نہ کھائے ہوں وہ وصل کی چاشنی حاصل کرنے سے بھی محروم رہتا ہے، بقول شاعر :
وصالِ یار بجز ہجرِ یار کچھ بھی نہیں
نہ ہوں جو پھول کے پہلو میں خار، کچھ بھی نہیں
( پروفیسر سعداللہ خان کلیم)
مصنف نے معاشرے کے تلخ حقائق کو لفظوں کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
”وہ سٹریچر پر بے سدھ پڑی تھی مگر ٹوٹتی سانسیں اب بھی چل رہی تھیں۔ دل کی دھڑکن مدھم پڑ چکی تھی، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دل دھڑک دھڑک کر اب تھک چکا ہو اور ابدی سکون کا متمنی ہو۔ ننھی پری کا گلاب جیسا جسم مانو مرجھائی ہوئی کلی کی مانند ہوا کے آخری جھونکے کے انتظار میں تھا اور گرم اتنا کہ جیسے تپتے صحرا میں عمر گزاری ہو۔“
مصنف کی مکمل کتاب پڑھنے کے لیے دیے گئے لنک کو دبائیے۔
https://www.meraqissa.com/book/1898