ہمارے ملک میں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جنھوں نے ملک کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔جہانگیر بدر نے اپنی اس تحریر میں ملک کے انھی نوجوانوں کی خدمات کا ذکر کیاہے۔جہانگیرپیشے کے لحاظ سے ایک آڈیالوجسٹ ہیں۔انھوں نے مختلف موضوعات پر کہانیاں لکھی ہیں اور ان کی کہانیاں خوش بیانی کی وجہ سے قاری کی دلچسپی کا مرکز بنتی ہیں۔جہانگیر بدر کا اندازِ تحریر دلکش ہے۔ان کی کہانی کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”یہ ڈھاکہ کالج کے قریب ایک پُرہجوم بازار تھا۔یہاں ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں دستیاب تھیں۔یہ ہر طبقے کے لوگوں کی خریداری کے لیے سب سے مشہورجگہ تھی۔ایک بہت اچھی مارکیٹ تھی جہاں زیورات، بیگ، کپڑے، اسٹیشنری کی اشیاء، بیڈ شیٹس اور تکیے وغیرہ ملتے تھے۔“
یہ کہانی ہے صوفیہ اور تبسم نامی دو سہیلیوں کی جوکہ ایک یونیورسٹی کی طالبات ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک بم دھماکے الزام میں پولیس کی گرفت میں آجاتی ہیں۔اس کہانی میں شاہین اکبر ایک ایسا کردار ہے جوکہ ملک کی حفاظت کرتے کرتے شہید ہوجاتا ہےاور حکومت کی جانب سے اسے تمغۂجرات سے نوازا جاتا ہے۔
کہانی میں ایک اور اہم کردار عبدلرافع کا ہے جو کہ محنت کرکے ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر سے ڈپٹی کمشنر بن جاتا ہے کیوں کہ اسے اپنے ملک سے بےپناہ محبت ہوتی ہے اور وہ اس کےلہے بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔قصہ مختصریہ کہ اس کتاب میں مختلف کرداروں کی وطن کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کا اسلوب سادہ مگر از حد دلچسپ ہے۔
”جونیئرآفیسرز نے تمام افراد کا ڈیٹا اکھٹا کرلیا تھا۔جب سینئرافسر آیا تو اس نے اپنے لیپ ٹاپ میں موجود سارے ڈیٹا کے بارے میں پوری تفصیل سے بریفنگ دی۔اب انھوں نے لائبریرین کو ایک ایک فرد کی تصویر دکھانی شروع کی۔اس نے صوفیہ کو پہچاننے میں دیر نہیں لگائی تھی۔“
وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے وطن کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ہمارا ملک ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ہمیں ہر حال میں اپنے ملک کے دفاع کے لیے کھڑے ہونا چاہیے۔اس ملک کے حصول کے لیے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
یہ کتاب قاری میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتی ہے، اپنی کتاب آرڈر کرنے کےلیے ابھی اس لنک کو دبائیں۔