تعلیم کسی بھی قوم کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے کافی اہم ہوتی ہے۔ تعلیم ایک فرد کو کام کرنے اور زندگی میں سبقت حاصل کرنے کے لیے بہتر سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ ایک صحیح راستہ دیکھا کر انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے اور یوں وہ خود اعتمادی حاصل کرتا ہے اور خوشگوار زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
ڈاکٹر محمد ناصر خان علم التعلیم کے استاد ہیں۔ وہ بہت سے ممالک کا تعلیمی سفر کرچکے ہیں۔ وہ نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔اس کتاب میں انھوں نے ناصرف علم التعلیم کے حوالے سے عمدہ معلومات درج کی ہےبلکہ تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کے متعلق بھی جامع تذکرہ کیا ہے۔علم التعلیم کے حوالے سے مصنف نے بہت جامع انداز میں اپنے خیالات درج کیے ہیں۔ جیسے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”میرے نزدیک تخیلات کا پیدا ہونا انسان کی فطرت میں ہے۔ تخیل کے لیے کسی منطق کی ضرورت نہیں۔ جبکہ تخیل بغیر منطق کے کسی تصور میں نہیں بدل سکتا۔ جب تخیل تصور میں بدلتی ہے تو ممکنات جنم لیتی ہیں۔ اور جب کوئی ممکن عملی شکل اختیار کرجائے تو باضابطہ علم بن جاتا ہے۔ انسانی شعور میں تخیل سے تصور تک کا سفر باقاعدہ تربیت پر منحصر ہوتا ہے۔“
ناصر خان نے اس کتاب میں عمدہ اشعار بھی قلم بند کیے ہیں۔ ناصر خان کے اشعار میں تعلیم کے حوالے سے غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ان کا شعری اسلوب بےحد رواں اور منفرد ہے۔ اس کتاب میں ان کی یہی خوبی نمایاں ہے
جیسے:
آدابِ معلم سے بدلتے ہیں صبح شام
صدیوں سے آزمودہ ہےیہ فتح مبین کا جام
ادھوری داستان ہے نظامِ تعلیم ہمارا
مغرب کی تقلید میں زبانِ غیر کا سہارا
بہت کم سمجھتے ہیں تعلیم یافتہ کا مفہوم
بڑھ رہا ہے ہر ملک میں سند یافتہ کا ہجوم
مصنف نے اس کتاب میں چھوٹی چھوٹی سبق آموز حکایات بھی لکھی ہیں جس میں تعلیم کی اہمیت، محنت کے ثمرات، فرد کی عزتِ نفس اور لوگو ں کے ساتھ بھلائی کا ذکر ہے۔ ان کا اندازِ تحریر دلچسپ ہے۔ ان کے الفاظ سادہ سے انداز میں قاری کا دل موہ لیتے ہیں۔ ناصر خان کی کہانیاں اپنی خوش بیانی کی وجہ سے قاری کی دلچسپی کی مرکزبنتی ہیں۔ یہ دلچسپ کتاب آرڈر کرنے کےلیے ابھی اس لنک کو دبائیں۔