داستان کے تمام مصنفین ہمارے لیے بہت اہم ہیں ۔ہر مصنف اپنے ساتھ دوسروں کوسکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ نیا لاتا ہے۔ ہماری ایسی ہی ایک مصنفہ” ختیجہ یاسین“ ہیں، جو ابھی تو زیرِ تعلیم ہیں لیکن لکھنےمیں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ان کی تحریر کردہ نظموں کا مجموعہ ”سفرِ زندگی“ حال ہی میں شائع ہوا ہے، جو کہ اللہ اور انسا ن کے تعلق کو بیان کرتی ہیں،جو انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیاں کرتی ہیں۔ ختیجہ ایک نئی شاعرہ ہیں اور ”سفر ِ زندگی “ ان کی پہلی کتاب ہے، اس کے باوجود ان کا انداز خاصہ پختہ اور دل چسپ ہے۔ تو آئیے ملتے ہیں ختیجہ سے!
!آئیے ملتے ہیں ختیجہ یاسین سے
السلام علیکم،ختیجہ! کیسے مزاج ہیں آپ کے؟
ختیجہ: وعلیکم السلام، الحمداللہ۔ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اپنے بارے میں کچھ بتانے کا موقع دیا۔
سوال: اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے متعلق کچھ بتائیں؟
جواب : میں جناح یونیورسٹی میں فارمیسی کی طالب ِ علم ہوں اور میری پڑھائی کا چوتھا سال چل رہا ہے۔ فارمسسٹ بننا میری زندگی کا اہم مقصد رہا ہے، یہ میرا وہ خواب ہے جو میں بچپن سے دیکھ رہی ہو ں۔ یہ صرف میرا ہی نہیں، میرے والدین کا بھی خواب ہے وہ چاہتے ہیں کہ میں ایک اچھی فارمسسٹ بنو ں۔اس لیے اس خواب کو پورا کرنا اب میری زندگی کا اہم مقصد بن گیا ہے۔ اس مقام تک مجھے پہچانے کے لیے میرے والدین نے میری بہت حوصلہ افزائی کی میرا ساتھ دیا ،آج میں جس مقام پر ہو ں یہ سب میرے والدین کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
سوال: بچپن کیسا گزرا؟ ادب سے شغف کیا آپ کے ماحول اور پرورش کااثر ہے؟
جواب : میرا بچپن ڈائری میں اپنی چھوٹے چھوٹے قصے اور باتیں لکھتے ہوئے گزرا۔ ڈائری میں باتیں لکھنا جیسے میری عادت سی بن گئی تھی۔میں لوگوں سے باتیں کرنے کے بجائے اپنی باتوں اور خیالات کو ڈائری میں لکھنا پسند کرتی ہوں۔ ادب سے میرا تعلق بچپن سے تو نہیں مگر آس پاس کی چیزوں کو اپنی خوشی ،غم کو قلم کی مدد سے الفاظ میں پرونا سیکھ گئی تھی۔ اسی طرح میں اپنے احساسات کا اظہار اپنے لفظوں کے ذریعے کیا کرتی ہوں۔
سوال: لکھنا کیسے شروع کیا؟ محرک کیا تھا؟
جواب : میری ڈائری میں لکھے گئے احساسات کب نظموں کی شکل اختیار کر گئے مجھے پتا ہی نہیں چلا ۔میٹرک کے بعد مجھے نظم لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا . مگر ایسی نظمیں جو لوگوں کے دل کو چھو جائیں۔ ایسی نظمیں جو لوگوں کو دنیا کی سچائی بتا سکیں، جو انسان اور اللہ کے درمیان کا رشتہ بتا سکیں۔ جو لوگوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔ اس طرح میں نے لوگوں کے حالات کو نظم کی شکل دینا شروع کی۔پھر پچھلے سال میں نے کرونا کے حالات میں لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس بیماری کے سبب میں نے لوگوں کو اللہ سے جڑتا ہوا دیکھا اور تب میں نے یہ کتاب ”سفرِ زندگی“ لکھنےکا سوچا کہ ایک ایسی کتاب جو مایوس لوگوں میں بھی ہمت لا سکے اور اس میں میرے اللہ نےمیرا ساتھ دیا۔
سوال : اپنی لکھی ہوئی کونسی نثر یا نظم آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ پسندیدگی کی کوئی خاص وجہ؟
جواب : ویسے تو مجھے میری ساری نظمیں بہت پسند ہیں۔ مگر میری پسندیدہ نظم ”رب سے باتیں “ ہے کیوں کہ مجھے لگتا ہے جب انسان اللہ سے بات کرلے تو اسے دنیا میں کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ جب انسان اپنی فریاد رب کو سنا رہا ہوتا ہے تو اس کے اور رب کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔ جو مشکل ، تکلیف وہ کسی سے نہیں کہہ پارہا ہوتا وہ رب سے کہہ کر سکون محسوس کرتا ہےاور یہی نہیں جب وہ انسان کسی مشکل یا تکلیف میں ہوتا ہے تو وہی رب جس کو وہ اپنا دوست مانتا ہے وہ مشکل سے نکلنے کا راستہ بھی بتاتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے۔ ہم دنیا سے کہہ کر کتنی بار ٹھکرائے جاتے ہیں، مگر اللہ ہمیں ٹھکراتا نہیں وہ تو کہتا ہے کہ پکارو مجھے میں جواب بھی دو ں گا اس لیے مجھے یہ نظم بہت پسند ہے کیوں کہ یہ نظم اللہ اور بندے کے رشتے کو ظاہر کرتی ہے۔
سوال: اپنی پہلی کتاب پر گھر والوں اور دوست احباب کے کیا تاثرات رہے؟
جواب : میری پہلی کتاب پر میرے والدین اور میرے دوستوں کی خوشی مجھ سے بھی زیادہ تھی۔میرے والدین میری حوصلہ افزائی کررہے تھے کہ میں آگے بھی اسی طرح کی کتاب لکھوں اور اپنے قلم کی طاقت اور لفظوں کی مدد سے لوگوں کی ہمت بڑھاؤ ں۔میرے دوست جنہوں نے ہر وقت میرا ساتھ دیا میری نظم لکھنے کی قابلیت کو پہچانا اور مجھ سے کہا کہ میں بہت اچھی نظمیں لکھتی ہوں، ان سب کی اس حوصلہ افزائی نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ کتاب شائع ہونے کے فوراً بعد سب سے پہلے میرے گھر والوں اور میرے دوستوں نے پڑھی۔ ان سب کا ساتھ اور یہ حوصلہ مجھے اس مقام تک لے آیا۔
سوال: مستقبل میں کن موضوعات اور اصناف پر قلم اُٹھانا چاہیں گی؟
جواب : ان شاء اللہ مستقبل میں بھی میں لوگوں کے حالات، ان سے جڑی تکلیفیں ، بندے کا اپنے اللہ سے تعلق ، انسان کا اپنے اللہ تک کا سفر اور رب کے معجزے۔ ان عنوان پر قلم اٹھانا چاہو ں گی جو انسان سے جڑے دنیا کی حقیقتوں کو بیان کرتی ہو، ان کے معاشرتی حالات کو بیان کرتی ہو۔ جو انسان کو دین کی طرف لے جائے اور اپنے رب سے جڑنے کا ایک گہرا راز بتائے۔
سوال: دیگر کیامشاغل ہیں؟
جواب : دیگر مشاغل میرے جیسے دستکاری ،مصوری، بیکنگ وغیرہ ہے۔ ویسے مجھے نئی چیزیں سیکھنے اور کرنے کابہت شوق ہے اور آ ج کل میرا شوق عربی خطاطی ہے جو کہ مجھے بہت پسند ہے۔
سوال: پسندیدہ شعراء/مصنفین اور کتب کون کون سی ہیں؟
جواب : میرے پسندیدہ مصنف ”ناصر افتخار “اور مصنفہ ” نمرہ احمد “اور ”عمیرہ احمد “ہیں. ان کی یہ کتابیں ” جنت کے پتے“ ”مصحف“اور ” پیرِکامل“ جو کے مجھے بہت پسند ہیں، ان میں لکھے گئے ایسے الفاظ جو دل کو چھو جائیں۔ ناصر افتخار کی یہ کتاب ”خود سے خداتک “جو انسان کے اللہ تک کے سفر کو بتاتی ہے۔ ان کےلکھے گئے الفاظ دل کی گہرائی کو چھوجاتے ہیں۔
سوال: ادارے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : داستان لوگوں کوایسے مواقع فراہم کرتا ہے، جس سے لوگ اس ادارے کے ذریعے اپنی قابلیت کو باہر لا سکتے۔ لوگوں تک اپنے خیالات کو پہنچاسکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ داستان مصنف کی حوصلہ افزائی بھی کررہا ہے تاکہ مستقبل میں بھی مصنف اس طرح کی کتاب لکھیں جو لوگوں تک فیض پہچانے کا ذریعہ ہو ۔میں داستان کے ممبران اور ان کی کوششیں دیکھ کر ان کا شکریہ ادا کرتی ہو ں کہ یہ میرے خیالات کو لوگوں تک پہچانے کا ذریعہ بنے۔
ختیجہ یاسین، جنہوں نے اتنی کم عمری میں اپنے خیالات کو عام فہم زبان میں، لیکن انتہائی دلچسپ اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ اِن کی نظمیں انسان کو اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے معجزوں کا بھی یقین دلاتی ہیں۔ ختیجہ کی دل چسپ شاعری کی کتاب ”سفرِ زندگی“ ابھی اس لنک پر جاکر آرڈر کیجیے۔